ننگے سر نماز پڑھنا علماء اہل حدیث کی نظر میں

*🕯️ننگے سر نماز علماء اہل حدیث کی نظر میں🕯️*


یہ تحریر اہل حدیث عوام کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے آخر تک ضرور پڑھیں۔ 


*(۱) مولا نا ثناءاللہ امرتسری کا فتوی:*

صحیح مسنون طریقہ نماز کا وہی ہے جو آ نحضرت ﷺ سے بالدوام ثابت ہوا ہے یعنی بدن پر کپڑے اور سر ڈھکا ہوا ہو پگڑی سے یا ٹوپی سے۔

( فتاویٰ ثنائیہ جلدارصفحہ ۵۲۵)


*(۲) مولانا شرف الدین کا فتوی:*

ننگے سر نماز ادا ہو جاۓ گی مگر سر ڈھانپنا اچھا ہے، آنحضرت ﷺ نماز میں اکثر عمامہ یا ٹوپی رکھتے تھے۔ مگر یہ بعض کا جو شیوہ ہے کہ گھر سے پگڑی یا ٹوپی سر پر رکھ کر آتے ہیں اورٹوپی یا پگڑی قصدا اتار کر ننگے سر نماز پڑھنے کو اپنا شعار بنارکھا ہے اور پھر اس کو سنت کہتے ہیں بالکل غلط ہے، یہ فعل سنت سے ثابت نہیں۔ ہاں اس فعل کو مطلقاً ناجائز کہنا بھی بیوقوفی ہے، ایسے ہی برہنہ سر کو بلاوجہ شعار بنانا بھی خلاف سنت ہے اور خلاف سنت بیوقوفی ہی تو ہوتی ہے ۔ ( فتاوی ثنائیہ ۵۲۳٫۱)


*(۳) مولا نا غزنوی کا فتوی:*

 اگر ننگے سر نماز فیشن کی وجہ سے ہے تو نماز مکروہ ہے،اگر خشوع کے لئے ہے تو تشبہ بالنصاری ہے۔ اسلام میں سواۓ احرام کے ننگے سر رہنا خشوع کے لئے نہیں ہے، اگر سستی کی وجہ سے ہے تو منافقین کی عادت ہے، غرض ہر لحاظ سے نا پسند یدہ ہے ۔

( فتاوی علماء اہل حدیث ۲۹/۲)


*(۴) شیخ الکل میاں نذیر حسین کا فتوی:*

نماز میں سر ڈھانکنا ضروری نہیں ہاں ایک مسنون امر ہے اگر کرے تو اولی ہے نہ کرے تو عتاب نہیں۔ 

(فتاوی نذیریہ ۲۴۰٫۱) 


*(۵) فتاوی ستاریہ میں:* 

( سر ڈھانپنے کی بابت لکھا ہے ) اگر عمل کرے تو اچھا ہے اگر نہ کرے تو نماز ہو جاۓ گی۔ (۱۸۲٫۴)


*(۶) نماز نبوی میں ہے:*

سر ڈھانپنا زیادہ سے زیادہ مستحب ہے لوگوں کو اس کی ترغیب تو دی جاسکتی ہے مگر نہ ڈھانپنے پر ملامت نہیں کرنی چاہئے. (ص ۸۳)


*(۷) فتاوی نذیریہ میں ہے:*

یا بنی آدم خذوا زينتكم عند كل مسـجد اس آیت پاک سے ثابت ہوا کہ ٹوپی اور عمامہ سے نماز پڑھنا اولی ہے کیونکہ لباس زینت ہے اگر عمامہ اور ٹو پی رہتے ہوۓ تکاسلا برہنہ سر نماز پڑھے تو مکروہ ہے۔

(فتاوی نذیریہ جلد ۱ صفحه ۲۴۰)

https://chat.whatsapp.com/K5gofWSdj282x7YkTFzRBM 

*(۸) تمہارے فتاوی ستاریہ میں ہے:*

 ”اللہ تعالی نے فرمایا خذوا زينتكم عند كل مسـجد اس آیت سے ثابت ہوا کہ ٹوپی یا عمامہ وصاف جوتی کے ساتھ نماز پڑھنی اولی وافضل ہے کیونکہ ٹوپی اور عمامہ وصاف جوتی باعث زیب و زینت ہے ۔ اور نمازی کو اچھی ہیئت میں کھڑا ہونا چاہئے لیکن اگر کوئی شخص بلا عذر ننگے سر نماز پڑھ لے تو جائز ہے اور کوئی مضائقہ نہیں۔ (۵۹٫۳)

 ( ٹوپی اور عمامہ کی افضلیت کو آیت سے ثابت کیا ،مگر تعجب ہے کہ بلا عذر ننگے سر نماز پڑھنے پر کوئی مضائقہ نہیں؟ )


*(۹) پیر جھنڈا راشدی کا فتوی:*

 غیر مقلدین کے عظیم محقق اور ان کے امام پیر محب اللہ راشدی سندھی لکھتے ہیں: احادیث کے تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر و بیشتر اوقات آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام ؓ سر پر یا تو عمامہ باندھے رہتے یا سرپر ٹوپیاں ہوتی تھیں، اور راقم الحروف کے علم کی حد تک سواۓ حج وعمرہ کوئی ایسی صحیح حدیث دیکھنے میں نہیں آئی جس میں یہ ہو کہ آنحضرت ﷺ ننگے سر گھومتے پھرتے تھے یا کبھی سرمبارک پر عمامہ وغیرہ تھا لیکن مسجد میں آ کر عمامہ وغیرہ اتار کر رکھ لیا اور ننگے سر نماز پڑھنی شروع کی۔ کسی محترم دوست کی نظر میں ایسی کوئی حدیث ہوتو ہمیں ضرورمستفید کیا جاۓ ۔

 (الاعتصام صفحہ نمبر۲۔ 9 جولائی ۱۹۹۳ء)۔

*مزید لکھتے ہیں:* ” آجکل جونئی نسل خصوصاً اہل حدیث جماعت کے افراد نے یہ معمول بنارکھا ہے اسے چلتے ہوۓ فیشن کا اتباع تو کہا جا سکتا ہے مسنون نہیں ، کیا کسی چیز کے جائز ہونے کا یہ مطلب ہے کہ مندوبات ومستحبات کو بالکل ترک کر دیا جاۓ ؟ جواز کے اظہار کے لئے کبھی کبھی اتفاقاً بھی ننگے سر رہنے پرعمل کیا جاسکتا ہے لیکن آج کل کے معمول سے تو یہ ظاہر ہورہا ہے کہ کتب احادیث میں جو جو مندوبات و مستحبات ،سنن ونوافل کے ابواب موجود ہیں یہ سراسر فضول ہیں اور ہمیں صرف جواز اور رخص پر ہی عمل کرنا ہے یہ کوئی اچھی بات نہیں۔ (الاعتصام صفحہ۲)۔


*(۱۰) علامہ وحیدالزمان:*

 نے بھی سستی کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھنے کومکروہ شمار کیا ہے۔

(کنز الحقائق ۲۷)۔ 


*(۱۱) کتاب نماز مسنون میں ہے:*

ننگے سر رہنا اور ننگے سر ہی نماز پڑھنا رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے معمولات کے خلاف ہے ۔(ص:۱۸)

 

 *(۱۲) کتاب صلاۃ المسلمین میں ہے :*

غرض یہ کہ ایسی کوئی حدیث نہیں کہ جس میں ننگے سر صلاۃ ادا کرنے کی صراحت ہو، اور وہ بھی بغیر عذر کے۔(ص۷۳)


 👈 کبھی اہل حدیث عوام نے غور کیا کہ تمہارے امام مسجد سرڈھانپ کر نماز پڑھانے کا اہتمام کرتے ہیں اور زیادہ ثواب کماتے ہیں ،لیکن عام لوگوں سے سنت کی مخالفت کرا کے انہیں اس ثواب سے محروم رکھتے ہیں ۔ بلکہ تمہارے علماء کے فتوے کے مطابق انہیں بیوقوف بناتے ہیں۔ 


*🕯️اور کیا آپ حضرات جانتے ہیں نماز میں رفع یدین کرنے کی اہل حدیث اکابر علماء کے ہاں کیا حیثیت ہے؟*


1️⃣ *ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪﯾﻦ ﮐﮯ ﺟﻤﺎﻋﺘﯽ ﻓﺘﺎﻭﯼ* ﻋﻠﻤﺎﺋﮯ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻣﺴﺘﺤﺐ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ۔

( ﻓﺘﺎﻭﯼ ﻋﻠﻤﺎﺋﮯ ﺣﺪﯾﺚ ﺟﻠﺪ 3 ﺻﻔﺤﮧ 153 ﺗﺎ 156 )


2️⃣ *ﻣﯿﺎﮞ ﻧﺰﯾﺮ ﺣﺴﯿﻦ* ﺻﺎﺣﺐ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻋﻠﻤﺎﺋﮯ ﺣﻘﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﭘﻮﺷﯿﺪﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﮐﻮﻉ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﻭﺭ ﺭﮐﻮﻉ ﺳﮯ ﺍﭨﮭﺘﮯ ﻭﻗﺖ ﺭﻓﻊ ﯾﺪﯾﻦ ﻣﯿﮟ ﻟﮍﻧﺎ ﺟﮭﮕﮍﻧﺎ ﺗﻌﺼﺐ ﺳﮯ ﺧﺎﻟﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺭﻓﻊ ﯾﺪﯾﻦ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﺩﻻﺋﻞ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ۔

 ( ﻓﺘﺎﻭﯼ ﻋﻠﻤﺎﺋﮯ ﺣﺪﯾﺚ ﺟﻠﺪ 3 ﺻﻔﺤﮧ161 )


3️⃣ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺠﺒﺎﺭ ﻏﺰﻧﻮﯼ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ *ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺩﺍﺅﺩ ﻏﺰﻧﻮﯼ* ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺭﻓﻊ ﯾﺪﯾﻦ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻼﻣﺖ ﻧﮩﯿﮟ ( ﺍﮔﺮﭼﮧ ﻋﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ ) 

( ﻓﺘﺎﻭﯼ ﻋﻠﻤﺎﺋﮯ ﺣﺪﯾﺚ ﺟﻠﺪ 3 ﺻﻔﺤﮧ 151 ﺍﻭﺭ 152 )


4️⃣ ثناء اللہ امرتسری ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻣﺬﮨﺐ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﻓﻊ ﯾﺪﯾﻦ ﮐﺮﻧﺎ ﻣﺴﺘﺤﺐ ﺍﻣﺮ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﺛﻮﺍﺏ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻠﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ.

( ﻓﺘﺎﻭﯼ ﺛﻨﺎﺋﯿﮧ ﺟﻠﺪ 1 ﺻﻔﺤﮧ 579 )


5️⃣ *ﻧﻮﺍﺏ ﺻﺪﯾﻖ ﺣﺴﻦ ﺧﺎﮞ* ﺷﺎﮦ ﻭﻟﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﻧﻘﻞ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﮮ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔۔ " ﺭﻓﻊ ﯾﺪﯾﻦ ﻭ ﻋﺪﻡ ﺭﻓﻊ ﯾﺪﯾﻦ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﺍﻥ ﺍﻓﻌﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﮯ ﺟﻦ ﮐﻮ ﺁﻧﺤﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽٰ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ، ﺍﻭﺭ ﺳﺐ ﺳﻨﺖ ﮨﮯ ، ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﮨﮯ ، ﺣﻖ ﻣﯿﺮﮮ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺳﻨﺖ ﮨﯿﮟ۔۔۔

(ﺭﻭﺿﮧ ﺍﻟﻨﺪﯾﮧ , ﺻﻔﺤﮧ 148 )


6️⃣ *ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪ ﻋﺎﻟﻢ ﻋﺒﺪﺍﻟﻤﻨﺎﻥ* ﻧﻮﺭ ﭘﻮﺭﯼ ﺳﮯﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺭﻓﻊ ﯾﺪﯾﻦ ﻓﺮﺽ ﮨﮯ ﯾﺎ ﺳﻨﺖ ﺗﻮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ '' ﻓﺮﺽ ﺍﻭﺭ ﺳﻨﺖ ﮐﯽ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﮐﺴﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ '' 

( ﻗﺮﺍﻥ ﻭﺣﺪﯾﺚ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺣﮑﺎﻡ ﻭ ﻣﺴﺎﺋﻞ،ﺟﻠﺪ1 ،ﺹ 179 )



▪️ تعجب ہے کہ رفع یدین والے مستحب و اولی عمل کی اشاعت کے لئے تم اپنی تمام توانائیاں صرف کر دیتے ہو، ہر محفل ہر گفتگو اور ہرتحریر میں یہ مسئلہ زیر بحث لاتے ہو۔ خاص ہوں یا عوام مساجد، بازاروں گلی ، محلے ، ہر جگہ وسوسے ڈالتے ہو رفع الیدین پر جتنا زور دیتے ہو شائد ہی کسی اور کام پر اتنا دیتے ہو۔ جبکہ سر ڈھانپ کر نماز پڑھنے والے مسنون ومستحب واولی عمل کو مٹانے کے لئے تم اپنی توانائیاں صرف کر دیتے ہو۔ اس عملی تضاد سے یہ واضح ہوتا ہے کہ غیر مقلدین کا مقصد سنتوں کی اشاعت نہیں بلکہ ان کا مقصد حدیث وسنت کے نام پر اپنے مزعومہ افکار کی اشاعت ہے۔

 حتی کہ اب تمہارے جدید نئے مفتی تو یہاں تک کہنے لگ گئے ہیں کہ :

سر ڈھانپنے پر پسند یدہ ہونے کا حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ 

(الاعتصام صفحہ۹،۲ جولائی ۱۹۹۳)


▪️نیز تمہارے خواجہ قاسم لکھتے ہیں: پگڑی یا ٹوپی اگر نبی ﷺ کے لباس میں شامل تھی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں پہن کر نماز پڑھنا مستحب قرار دیا جاۓ ۔ ( قد قامت الصلا ة:۱۷۴)*


*اہل حدیث عوام کے لیے لمحہ فکریہ* 

Comments